Friday 9 May 2014

پہلی رات

1 comments




" نہیں کاشی آج نہیں "۔۔۔۔
گہری نیند سے اُٹھائے جانے کی برہمی ثمن کے لہجے میں نمایاں تھی
"میں آج بہت تھک گئی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں بھی تو بہت تھک گیا ہوں جانو پلیز" ۔۔۔۔ کاشان نےاہستگی سے اسکا رخ اپنی سمت موڑا ۔۔۔
"۔کیوں آپ کیوں تھک گئے ! ! ! "۔۔۔۔ ثمن ممنائی

"آپ نے کیا کیا ہے ؟ صرف مزدوروں کے ساتھ سامان شفٹ کروایا اور آفس بھاگ گئے "۔۔۔۔۔

کاشان نے اک مسکراہٹ کے ساتھ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کردیں ۔۔۔۔
"جانا ضروری تھا نا جان ۔۔۔۔۔۔۔ ایمرجنسی کال تھی کلائنٹ کی "

"جانتی ہوں کتنی ایمر جنسی کال تھی "۔۔۔۔ شکایت بوجھل ہونے لگی

رات کی خاموشی ، خوابناک ماحول اور کاشان کی گہری قربت نے ثمن کو پگھلانا شروع کیا تو اس نے کاشان کے سینے میں منہ چھپا لیا

" اونہہ ! میں نے سارا دن لگا یا پھر بھی صرف کچن اور بیڈ روم سیٹ ہوئے ۔۔۔۔ اگر جو آپ ساتھ ہوتے تو ہم اب تک فارغ ہو چکے ہوتے "۔

"ہاں ! یہ تو ہے " ۔۔۔۔۔۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا

اس کے شرارت بھرے جملے نے ثمن کی ساری خفگی دور کردی اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی

"بہت برے ہو آپ "۔۔۔۔ اس نے اپنے بازو کاشان کی گردن کے گرد حمائل کر دیئے
"جانتا ہوں ! ! ! ! "۔۔۔۔ کاشان نے اس پر جھک کر اپنے برے ہونے کا ثبوت دینا شروع کردیا

درڑڑڑڑڑ۔۔۔۔۔۔۔ درڑڑڑڑڑ
"کاشی سنئیے ! یہ کیسی آواز آرہی ہے "۔۔۔۔۔ ثمن چونکی

" اونہہ ہوں !" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاشان نے تو شاید ثمن کی بات بھی غور سے نہ سنی
ٹھک ٹھک چرڑڑڑڑڑ چرڑڑڑڑڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو سیکنڈ کے بعد پھر آواز گونجی
"دیکھئیے دیکھیئے کاشی ۔۔۔۔۔ کوئی ہے ہمارے گھر میں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمن جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی ۔۔۔۔

" کوئی نہیں ہے یار " ۔۔۔۔۔۔تسلسل ٹوٹا تو کاشان جھلا گیا ۔۔۔۔۔

نہیں نہیں کوئی ہے ۔۔۔۔۔دیکھئیے آواز چھت سے آرہی ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ ثمن بے چینی سے انگیاں چٹخانے لگی وہ بار بار کمرے کی چھت کی طرف دیکھ رہی تھی

کاشان نے اسکے ہاتھوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھ دئیے

"" مجھے تو کوئی آواز نہیں آئی یہ تمہارا وہم ہوگا "۔۔

"نہیں میرا وہم نہیں ہے ۔۔۔آج پڑوس سے ایک آنٹی آئیں تھیں وہ بتا رہی تھیں کہ اس علاقے میں چوریاں بہت ہوتی ہیں تم سارا دن اکیلی ہوگی زرا دروازے کھڑکیوں کا خیال رکھنا "۔۔۔۔

"افوہ ایک تو یہ عورتیں بھی نا ،،، تم گھبراؤ نئیں جانو ! میں نے ساری کھڑکیاں دروازے چیک کئیے ہیں اور چھت کا دروازہ بھی بند کر کے آیا ہوں ۔۔۔۔"
۔ ثمن اب بھی ڈری ہوئی تھی ۔۔۔

۔سہمی ہوئی ثمن پر کاشان کو بہت پیار آنے لگا اس نے بے تابی سے اسے اور قریب کرلیا

ثمن بھی اس سے لپٹ گئی
"میں ہوں نا جان تمہارے پاس !!! "۔۔۔ ۔۔کاشان کے لہجے میں وارفتگی تھی

کاشان کا ساتھ دیتے ہوئے ثمن گومگوں کفیت میں مبتلا تھی ۔۔۔۔ وہ پھر سے اسی آہٹ کی منتظر تھی مگر اب اسے پنکھے کی گھر گھر اور گھڑی کی ٹک ٹک کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دی ۔۔۔

آج کاشان کی گرم جوشی بھی سوا تھی ۔۔۔ سو تھوڑی ہی دیر میں اسکے زہن سے خوف کا ہر احساس مٹ گیا

تکمیل کے مختصر مگر جامع لمحے بڑی خوش اسلوبی سے گزر گئے ۔۔
دودھیا نائیٹی کے بٹن بند کرتے ہوئے ثمن نے کاشان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور پریشان ہو کر کہا

"کیا ہوا کاشی ۔۔۔۔ یہ آپکی آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہوگئیں اور بدن بھی تپ رہا ہے ! ! ! ! "
کاشان نے اسکا جملہ مکمل بھی نہ سنا ۔۔۔۔ دھیرے سے مسکرایا کروٹ لی اور آنکھیں موندھ کر بے سدھ ہو گیا ۔

لگتا ہے تھکن سے بخار ہوگیا ہے ابھی تو سوگئے اب صبح ہی دوا دوں گی۔۔۔ ثمن نے سوچا اور واش روم کی طرف چل دی ۔۔۔۔
چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ۔۔۔۔۔۔ چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ

اس بار آواز بلند تھی ۔۔۔۔ ثمن کو فوراً اس صندوق کا خیال ایا جو اس نے صبح ہی مزدوروں سے چھت پر رکھوایا۔۔۔۔ کوئی اسے بڑی تیزی سے کھسکا رہا تھا
وہ واش روم کے دروازے پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی

چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ! ٹھک ! ٹھک !
گہرے سناٹے میں صندوق کو کھسکا کر پٹخنے کی آواز بلکل واضح سنائی دے رہی تھی ۔۔۔
ثمن نے ادھ کھلے گریبان کو کس کے جکڑ لیا

کاشی ! ۔۔۔۔ اس نے چیخنا چاہا مگر آواز حلق میں ہی گُھٹ گئ
کاشان بے خبر سو رہا تھا

کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ !
اس بار کوئی تیزی سے صحن میں سیڑھیاں اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثمن نے کپکپاتے ہوئے ایک تیز سانس کھینچا
دھپ ! دھپ ! دھپ ! دھپ !

تیز قدموں کی آواز بیڈروم کے دروازے کے پاس آکر رک گئی

اس نے اپنی پوری قوت جمع کی اور بیڈ کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔

ابھی دوسرا قدم رکھا ہی تھا کہ لاک آہستگی سے گھوما
اور ہلکی سی چرچراہٹ سے دروازہ کُھل گیا۔۔۔

"ارے ثمن تم جاگ گئیں ۔۔۔۔ !" !!!

ثمن ساکت ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ دروازے پر کاشان کھڑا تھا ۔۔۔۔

"نئے گھر میں پہلی رات ہے نا اسی وجہ سے شاید مجھےنیند نہیں آرہی ،

اور تم بھی سو رہی تھیں تو میں نے سوچا چلو چھت پر بکھرا سامان سمیٹ دوں یہاں کی بارش کا تو تمہیں پتا ہے نا کبھی بھی بن موسم برس جاتی ہے۔۔۔"

ثمن نے پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے قریب آتے کاشان کو دیکھا اور بیڈ کی طرف گردن موڑ لی

"مگر تم کو کیا ہوا تم اتنی سہمی ہوئی کیوں کھڑی ہو ! ! ! "

ثمن نے خود کو جھنجھوڑتے کاشان کو کوئی جواب نہ دیا

وہ تو مسلسل خالی بستر پر بکھری چادر کی اُن سلوٹوں کو دیکھ رہی تھی ، جو تھوڑی دیر پہلے وہاں کسی کی پہلی رات گزرنے کی داستان بیان کر رہی تھیں

فرحانہ صادق

Thursday 8 May 2014

٭٭٭٭ بڑا آسیب ٭٭٭٭

0 comments



یہ لڑکا کون ہے جو ابھی گزرا ہے ؟؟

دوھزار گز پر بنی قلعے جیسی حویلی سے بڑے سائیں کی پراڈو آہستہ آہستہ باہر نکل رہی تھی ۔۔

زینت مائی کا پوتا ہے سائیں ! ۔ ۔ ۔ ۔اگلی سیٹ سے آواز آئی

اُس کالی چمارن کا ! ! ! ! ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے سائیں چونکے
ذرا روک تو اسے

جی حکم !!! سامنے آتے ہی لڑکے نے ہاتھ جوڑ لئیے اور نظریں جُھکالیں
کیا نام ہے تیرا؟ ۔ ۔ ۔ آواز میں گرج تھی

ہارون سائیں ! ۔ ۔ ۔ لڑکا کچھ اور جھُک گیا

یہ تُو اتنا صاف ستھرا ہوکر بستہ اُٹھائے کہاں جا رہا ہے ؟؟
غراتا ہوا سوال تھا ۔۔۔۔

سکول جارہا ہوں سائیں ۔ ۔ ۔ ۔لڑکا تھر تھر کانپ رہا تھا
سکول ! ! ! ! !
اب کمیوں کے بچے بھی سکول جائیں گے ۔ ۔ ۔ ایک بھاری قہقہہ فضا میں گونجا
آقا ہنسا تو حواری بھی ہنسنے لگے ۔۔۔

پاگل ہو گیا ہے کیا ۔ کبھی تیرے اگلوں نے بھی سکول کی شکل دیکھی ہے
بڑے سائیں کی آواز میں اب بھی گرج تھی ۔۔۔

خنک موسم کے باوجود لڑکا پسینے سے شرابور تھا ۔

چل پھینک بستہ ! ! ! ! !

لرزتے ہاتھوں سے بستہ چھُٹا اور ساتھ ہی لڑکا بھی گھٹنوں پر گرگیا ۔ ۔ ۔
یہ صاف کپڑے اُتار ۔ ۔ ۔ ۔

کانپتے ہاتھ اپنے بدن سے اپنے خواب الگ کر رہے تھے
یہ جوتے بھی اتار ۔ ۔ ۔

اب لڑکا جھلنگے بدرنگ بنیان اور پاجامے میں تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں اب لگ رہا ہے نا تُو اپنی ذات کا ۔ ۔ ۔ چل اب زمین پر لوٹ لگا۔ ۔ ۔ ۔

بڑے سائیں کا حکم حتمی تھا

خاک کو خاک میں ملا تے وقت بھی لڑکے کے ہاتھ جُڑے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔

کمی غلامی کے جملة آداب سے واقف جو تھا

چل اُٹھ اب جا کر گند سمیٹ ۔ ۔
جھاڑو مار ۔ ۔ ۔ ۔

گاڑی کا بلیک کوٹڈ شیشہ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھتا چلا گیا ۔ ۔ ۔
۔
بڑے سائیں کی بیوی نماز پڑھ رہی تھی جب زینت مائی حویلی کے واش روم صاف کرنے آئی

اس نے روتے ہوئے کہا ۔ ۔ 
اماں سائیں تم تو ولی لوگ ہو نا ۔۔۔۔میرے ہارون کے لئیے دعا کرو

درگاہ والے بابا کہتے ہیں اُس پر کسی بڑے آسیب کا سایہ ہوگیا ہے
نہ کھاتا ہے نہ سوتا ہے ۔  

بس دن رات دیوانوں کی طرح گلیوں کی جھاڑو لگاتا رہتا ہے اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں ۔

فرحانہ صادق