Wednesday 9 July 2014

شہید

1 comments

 

  جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرتے ہیں وہ شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں "

مسجد کے مرکزی ہال میں موجود سینکڑوں لوگ بڑی توجہ اورعقیدت سے مولوی اصغر الدین کا بیان سن رہے تھے

"شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ اللہ کے حکم سے اسکو رزق ملتا رہتا ہے "

 اسکے علاوہ شہادت کے ادنیٰ درجات بھی ہیں جیسے

حصول علم کی راہ میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے

جو جل کر مرجائے وہ بھی شہید ہوگا

جو ڈوب کر مر جائے  یا پیٹ کی بیماری سے مرنے والا بھی شہید کہلائے گا۔

حاضرین کے چہرے مسرت سے روشن ہوگئے 

مولوی صاحب کے بیان کے مطابق انکے کتنے ہی عزیز شہیدوں کے زمرے میں آتے ہیں 

" اور یہ دیکھئے عورتوں پر اللہ کا خاص احسان ۔۔۔۔۔ کہ جو عورت زچگی کی حالت میں مرے گی وہ بھی شہید کہلائے گی "

یہ سن کر درمیانی صف میں سر جھکاکر بیٹھا ہوا ایک نوجوان جھٹکے سے چونکا اور بلا ارادہ کھڑا ہوگیا 

مولوی صاحب سمیت تمام لوگوں نے اسے استفساری نظروں سے دیکھنا شروع کردیا 
اتنے لوگوں کی توجہ پر نوجوان گھبرایا مگر فورا ہی سنبھل کر بولا ۔۔۔۔

" میں یہ پوچھنا چاہتا تھا جناب کہ  ۔ ۔ ۔۔ ۔  غیرت کے نام پر باپ بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوی عورت بھی کیا شہید کہلائے گی ؟؟؟؟"

حاضرین کی منتظر نظروں کا رخ اب مولوی صاحب کی طرف تھا جن کی پیشانی عرق آلود ہو رہی تھی ۔۔۔۔
۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرحانہ صادق 

خالی ڈبے

1 comments


اچھے ماموں سے میرا رشتہ سگے ماموں بھانجی کا نہ تھا ۔کبھی چھٹپن میں امی نے انہیں اپنا بھائی بنایا اور مرتے دم تک اس رشتے کو نبھاتی رہیں۔
اگلے زمانے میں منہ بولے رشتوں کی بھی حرمت ہوا کرتی تھی اب تو خیر سگے رشتوں کی  بھی نہ رہی۔

اس منہ بولے رشتے کے علاوہ بھی ہمارا ایک اور رشتہ تھا اور وہ جو کتابوں سے محبت کرنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔

مطالعہ کرنا میرے نزدیک ایسا مرض تھا جو لاعلاج ہو اور مجھے یہ مرض اچھے ماموں سے ہی لگا تھا ۔

وہ جب بھی ہمارے گھر آتے انکی بغل میں کوئی نہ کوئی کتاب دبی ہوئی ہوتی
۔اچھے ماموں بہت قناعت پسند اور گوشہ نشین تھے انکی واحد تفریح ، واحد مشغلہ صرف کتابیں پڑھنا اور انہیں سینت سینت کر محبت سے رکھنا تھا ۔

گورنمنٹ کالج میں اردو کے استاد تھے اور بال بچے دار بھی تھے اس لئیے بہت زیادہ پیسے تو کتابوں پر خرچ نہ کر سکتے تھے پھر بھی کسی نہ کسی طرح  انہوں نے اچھی خاصی کتابیں جمع کر لی تھیں ۔

مذہب ، سائنس، فلسفہ، ادب، ، تاریخ ، سفر نامے ، کھیل کونسا ایسا موتی تھا جو انکے خزانے میں نہ تھا۔

انکے حلقہ احباب میں گنتی کے چار پانچ ہی لوگ تھے جنہیں وہ اپنے یہ موتی واپسی کی یقین دہانی کے ساتھ عنایت کرتے۔ اور میرا شمار بھی انہی خوش نصیبوں میں ہوتا تھا

۔کبھی کبھی کوئی کتاب اتنی اچھی لگتی کہ واپس کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا مگر میں جانتی تھی کہ اگر میں نے اسے رکھنے کی ضد کی تو اچھے ماموں اداس ہو جائیں گے ۔

اللہ نے انکا جوڑ بھی خوب بنایا تھا ۔ ماموں جتنا اپنی کتابوں پر نثار تھے ممانی اتنا ہی بیزار رہتی تھیں۔

وہ مزاج کی اچھی تھیں اور ماموں کا خیال بھی رکھا کرتیں مگر جب بھی ان دونوں میں کوئی تلخ کلامی ہوتی وہ براہ راست ماموں کی کتابوں کو ہدف بناتیں اور کہتیں دیکھ لیجئے گا جس دن میرا داؤ چلا میں اس کباڑ کا آگ لگا دوں گی اور ماموں ایسے ہو جاتے جیسے کسی نے انہیں قتل کرنے کی دھمکی دے دی ہو۔انکے دونوں بیٹوں کو بھی ان کتابوں سے کوئی شغف نہ تھا ۔ گھر والوں کے اس روئیے کے باعث ماموں اپنی کتاوں کے بارے ایسے فکر مند ہوتے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کے مستقبل کے متعلق ہوتا ہے ۔

سبھی انکا مزاق اڑایا کرتے۔مگر میں جانتی تھی کہ انکا دُکھ کیا ہے ۔۔۔ میں انکی دل جوئی کرتی تو کہا کرتے نجمہ وعدہ کرو میرے مرنے کے بعد تم میری کتابوں کا بہت خیال رکھو گی اور میں انکا دل رکھنے کے لئیے ہاں کر دیتی ۔اور ماموں کے چہرے پر ایک سکون اتر آتا ۔

گریجویشن کے فورا بعد میری شادی کا ہنگامہ شروع ہوگیا  اور میں  بیاہ کر دوسرے شہر اپنے سسرال  آگئی۔ ۔ ۔ ۔  تو ماموں  اور کتابوں دونوں سے رشتے میں لاتعلقی آگئی  

۔ویسے میاں جی کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی مگر کچھ سسرال کا ماحول پڑھنے پڑھانے والا نہ تھا   دوسرا گھر کے بکھیڑوں سے فرصت ہی نہ ملتی کہ کسی دوسرے مشغلے کی طرف دیکھا جائے۔ ۔

کبھی کبھی ہمک اٹھتی بھی ،،، مگر کوئی نہ کوئی بچوں کا کام سامنے آجاتا  ۔ سو مطالعہ میرے لئیے خواب پارینہ بن گیا  

چار چھ ماہ میں میکے کا چکر لگتا تو اچھے ماموں کی خبر مل جاتی ایک آدھ بار وہیں ان سے ملاقات بھی ہوئی وہ کافی کمزور ہوگئے تھے ذیابیطس نے انکی صحت اور اعصاب دونوں پر گہرا اثر ڈالا تھا ۔

۔وہ کسی بات کو لے کر  بے چین بھی لگ رہے تھے  ۔ چونکہ میری چھوٹی بیٹی بیماری کی وجہ سے  چڑچڑا رہی تھی اور اس نے مجھے اپنے ساتھ لگا رکھا تھا۔اس لئیے ماموں سے بات چیت خیر خیریت سے آگے نہ بڑھ سکی

۔۔آخری عمر میں اچھے ماموں کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ یہ ہی خبریں  ملتیں کہ ہفتہ ہفتہ ہسپتال میں داخل ہیں اور ہر دوسرے تیسرے روز ڈائی لیسز ہورہا ہے  ۔ انکی صحت تیزی سے گرتی جا رہی تھی ۔

امی کی بار بار یاد دہانی کے باوجود  کہ وہ مجھے بہت یاد کر تے ہیں ۔۔۔ ایک بار ہی ان سے ملنے ہسپتال جا سکی ۔۔۔۔۔ وہ دوائیوں کے زیر اثر غنودگی میں تھے۔ سو اس وقت بھی میری ان سے کوئی بات  نہ ہو سکی ۔

ایک دن ماموں کے چھوٹے بیٹے عمر کا روتے ہوئے فون آیا کہ نجمہ آپی ابو کے بارے ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہےانکی ضد پر انہیں ہم گھر لے آئے ہیں ۔ آپ آج ہی ابو سے ملنے آجائیے وہ آپکا بہت پوچھ رہے ہیں۔

میں نے فورا اپنے میاں جی کو لیا اور ماموں کے گھر پہنچ گئی ۔ 

اچھے ماموں کے کمرے کا ماحول بلکل ویسا ہی تھا جیسا ایک جلد مرنے والے بیمار شخص کا ہوتا ہے۔ فضا میں پھیلی ہلکی سی دوائیوں کی  بو، مدہم اداس خاموشی اور بیڈ کے آس پاس سوگوار  چہروں کا ہجوم ۔

میری آواز پر ماموں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور پلکیں جھپکا کر میرے سلام کا جواب دیا ۔

شدید کمزوری کے باعث وہ بولنے سے قاصر تھے ۔انکے ہونٹ پھڑپھڑائے تو میں ان کے قریب ہوگئی ، بہت جدوجہد کے بعد بھی ان سے کوئی لفظ ادا نہ ہوسکا مگر مجھے ایسا لگا وہ مجھے کہنا چاہتے ہیں کہ  وعدہ کرو تم میری کتابوں کا خیال رکھو گی  ۔

مجھ سے اپنے جزبات سنبھالنا مشکل ہوگئے میں نے انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور جواب میں صرف وعدہ ہی  کہہ سکی  ۔ مجھے لگا کہ میرے ایک لفظ سے ماموں کے چہرے پر اطمنان پھیل گیا۔

کب انکی سانس اکھڑی اور کب تین دن گزرے پتا ہی نہیں چلا ۔ 

سوئم کے شام تمام مہمانوں کے چلے جانے کے بعد  ممانی نے مجھے بلایا اور  کہا ۔۔۔ 
اللہ بخشے تمہارے ماموں کی ببیماری میں عیادت کے لئیے آنے  والوں کی آمد کا بہت سلسلہ رہتا تھا  ۔۔۔ تو  کمرے میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں نے کتابوں کی الماری اوپر سٹور روم میں رکھوا دی ہے تم  ایسا کرو آج ہی انہیں لے جانے کا انتظام کرلو ۔۔۔ 

میری نظر میں ماموں کی کتابوں سے کھچا کھچ بھری الماری گھوم گئی اور میں یہ سوچ کر پریشان ہوگئی کہ اتنی کتابیں آج ایک ساتھ کیسے لے جاؤں گی۔
۔میں نے ان سے کچھ نہ کہا  اور اثبات میں سر ہلا تی ہوئی عمر کے ساتھ چھت پر بنے سٹور روم  میں آگئی ۔

کتابوں کی الماری ایک کونے میں کھڑی تھی  مگر اسمیں کتابیں نہ تھیں بلکہ کچھ پرانے برتن اور گھر کا دوسرا فالتو سامان نظر ارہا تھا ۔۔

میں نے استفساری نظروں سے عمر کی طرف دیکھا مگر اسکا جواب آنے سے پہلے ہی میری نظر سٹور روم کے دوسرے کونے میں ناقدری سے پڑے اک  ڈھیر پر جم گئیں ۔
میں نے حیران ہوکر کہا ۔۔ ماموں کی تو بہت ساری کتابیں تھیں ۔۔۔۔۔
۔۔
ہاں جب ابو بہت بیمار ہوگئے اور مطالعہ کرنے کے قابل نہ رہے تو ہم نے سوچا اب کون اتنی کتابیں  سنبھالے گا ہم نے انہیں بیچ دیا ۔۔۔ عمر نے لاپرواہی سے جواب دیا۔کچھ کتابیں آپ کے لئیے روک لیں کیوں کہ ابو بار بار آپ کو کتابیں دینے کا ذکر کرتے تھے ۔۔

کیا ماموں کو اس بات کا علم تھا ۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے اندر اٹھنے والی تلخی کی لہر کو روکا   ۔
۔۔
نہیں ! !  اگر انکو اس بات کی بھنک پڑ جاتی تو وہ کبھی بھی ہمیں ایسا کرنے نہیں دیتے آپ کو تو انکی عادت کا علم تھا نا ۔۔۔ ویسے بھی آخری وقت میں تو انہیں ہوش ہی نہیں رہتا تھا ۔۔

۔ ہائے میرے ماموں ۔۔۔ ! ! ! !  جن کتابوں کو انہوں نے اپنی اولاد کی طرح رکھا آج انکی یہ بے قدری دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں  ۔

۔نجمہ آپی آپ کیا سوچ رہی ہیں ؟؟؟اگر آپ یہ کتابیں نہ لے جانا چاہیں تو بتا دیں ردی والا میرا  جاننے والا ہے میں  انکے آپ کو  اچھے پیسے دلوا دوں گا ۔۔۔ عمرنے  پیشکش کی ۔

۔نہیں نہیں ! ! !  اب انہیں کیسے لے جایا جائے میں تو یہ سوچ رہی تھی  ۔۔۔ میں نے بہتے ہوئے آنسو پوچھے ۔۔

۔کتابوں کو کیسے پیک کیا جائے یہ مسئلہ عمر نے حل کیا وہ الماری کے پیچھے حفاظت سے تہہ کر کے رکھے ہوئے دو  ٹی وی کے خالی کارٹن نکال لایا اور میرے ساتھ مل کر ساری کتابیں پیک کروا دیں ۔

۔میاں جی سے میں کتابوں کے بارے میں پہلے ہی تھوڑی سی حجت سے راضی کر چکی تھی ۔۔۔ انہوں نے اس معاملے کو میری ایما پر چھوڑ دیا تھا ۔۔
 ۔ممانی کے میکے سے بھی کچھ لوگ میرے شہر  سے آئے ہوئے تھے جنکی واپسی ہمارے ساتھ ہی  تھی۔۔ سو کتابوں کو سامان کے ساتھ لے جانے کا مسئلہ بھی حل ہو ہی ہوگیا۔

۔ دوسرے دن دفتر سے واپسی کے بعد کارٹن کو خالی کرواتے وقت میاں جی بولے ۔اچھا ہوا نجو تم یہ  کتابیں کارٹن میں بھر لائیں ۔۔۔۔  پتا ہے چلتے وقت عمر کیا کہہ رہا تھا ۔۔
۔کیا کہہ رہا تھا ؟؟؟۔۔۔ میں نے سر اٹھائے بغیر کام جاری رکھا  ۔۔۔
۔۔
۔کہہ رہا تھا بھائی جان ! ! !کارٹنز خالی ہوجائیں تو واپس بھجوا دیجئے گا ۔ضرورت کی چیز ہیں کام آجائیں گے  کبھی نہ کبھی۔۔۔ کرب کی اک لہر میرے اندر دوڑ گئی ۔۔۔۔ میں نے آہستہ سے پوچھا ۔۔۔ پھر آپ نے کیا جواب دیا ؟؟ 
میاں جی نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولے ۔۔۔۔۔ میں نے کہا بھئی  ! ہم تمہارے گھر سے اتنی ردی اٹھا لے جا رہے ہیں ۔۔۔ تو کارٹنز   کے ہزار بارہ سو پر تو ہمارا ہی حق بنتا  ہے نا ۔
۔
۔از فرحانہ صادق     

Friday 9 May 2014

پہلی رات

1 comments




" نہیں کاشی آج نہیں "۔۔۔۔
گہری نیند سے اُٹھائے جانے کی برہمی ثمن کے لہجے میں نمایاں تھی
"میں آج بہت تھک گئی ہوں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"میں بھی تو بہت تھک گیا ہوں جانو پلیز" ۔۔۔۔ کاشان نےاہستگی سے اسکا رخ اپنی سمت موڑا ۔۔۔
"۔کیوں آپ کیوں تھک گئے ! ! ! "۔۔۔۔ ثمن ممنائی

"آپ نے کیا کیا ہے ؟ صرف مزدوروں کے ساتھ سامان شفٹ کروایا اور آفس بھاگ گئے "۔۔۔۔۔

کاشان نے اک مسکراہٹ کے ساتھ اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنا شروع کردیں ۔۔۔۔
"جانا ضروری تھا نا جان ۔۔۔۔۔۔۔ ایمرجنسی کال تھی کلائنٹ کی "

"جانتی ہوں کتنی ایمر جنسی کال تھی "۔۔۔۔ شکایت بوجھل ہونے لگی

رات کی خاموشی ، خوابناک ماحول اور کاشان کی گہری قربت نے ثمن کو پگھلانا شروع کیا تو اس نے کاشان کے سینے میں منہ چھپا لیا

" اونہہ ! میں نے سارا دن لگا یا پھر بھی صرف کچن اور بیڈ روم سیٹ ہوئے ۔۔۔۔ اگر جو آپ ساتھ ہوتے تو ہم اب تک فارغ ہو چکے ہوتے "۔

"ہاں ! یہ تو ہے " ۔۔۔۔۔۔۔وہ معنی خیز انداز میں مسکرایا

اس کے شرارت بھرے جملے نے ثمن کی ساری خفگی دور کردی اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی

"بہت برے ہو آپ "۔۔۔۔ اس نے اپنے بازو کاشان کی گردن کے گرد حمائل کر دیئے
"جانتا ہوں ! ! ! ! "۔۔۔۔ کاشان نے اس پر جھک کر اپنے برے ہونے کا ثبوت دینا شروع کردیا

درڑڑڑڑڑ۔۔۔۔۔۔۔ درڑڑڑڑڑ
"کاشی سنئیے ! یہ کیسی آواز آرہی ہے "۔۔۔۔۔ ثمن چونکی

" اونہہ ہوں !" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاشان نے تو شاید ثمن کی بات بھی غور سے نہ سنی
ٹھک ٹھک چرڑڑڑڑڑ چرڑڑڑڑڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو سیکنڈ کے بعد پھر آواز گونجی
"دیکھئیے دیکھیئے کاشی ۔۔۔۔۔ کوئی ہے ہمارے گھر میں "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمن جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی ۔۔۔۔

" کوئی نہیں ہے یار " ۔۔۔۔۔۔تسلسل ٹوٹا تو کاشان جھلا گیا ۔۔۔۔۔

نہیں نہیں کوئی ہے ۔۔۔۔۔دیکھئیے آواز چھت سے آرہی ہے ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ ثمن بے چینی سے انگیاں چٹخانے لگی وہ بار بار کمرے کی چھت کی طرف دیکھ رہی تھی

کاشان نے اسکے ہاتھوں پر مضبوطی سے ہاتھ رکھ دئیے

"" مجھے تو کوئی آواز نہیں آئی یہ تمہارا وہم ہوگا "۔۔

"نہیں میرا وہم نہیں ہے ۔۔۔آج پڑوس سے ایک آنٹی آئیں تھیں وہ بتا رہی تھیں کہ اس علاقے میں چوریاں بہت ہوتی ہیں تم سارا دن اکیلی ہوگی زرا دروازے کھڑکیوں کا خیال رکھنا "۔۔۔۔

"افوہ ایک تو یہ عورتیں بھی نا ،،، تم گھبراؤ نئیں جانو ! میں نے ساری کھڑکیاں دروازے چیک کئیے ہیں اور چھت کا دروازہ بھی بند کر کے آیا ہوں ۔۔۔۔"
۔ ثمن اب بھی ڈری ہوئی تھی ۔۔۔

۔سہمی ہوئی ثمن پر کاشان کو بہت پیار آنے لگا اس نے بے تابی سے اسے اور قریب کرلیا

ثمن بھی اس سے لپٹ گئی
"میں ہوں نا جان تمہارے پاس !!! "۔۔۔ ۔۔کاشان کے لہجے میں وارفتگی تھی

کاشان کا ساتھ دیتے ہوئے ثمن گومگوں کفیت میں مبتلا تھی ۔۔۔۔ وہ پھر سے اسی آہٹ کی منتظر تھی مگر اب اسے پنکھے کی گھر گھر اور گھڑی کی ٹک ٹک کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دی ۔۔۔

آج کاشان کی گرم جوشی بھی سوا تھی ۔۔۔ سو تھوڑی ہی دیر میں اسکے زہن سے خوف کا ہر احساس مٹ گیا

تکمیل کے مختصر مگر جامع لمحے بڑی خوش اسلوبی سے گزر گئے ۔۔
دودھیا نائیٹی کے بٹن بند کرتے ہوئے ثمن نے کاشان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور پریشان ہو کر کہا

"کیا ہوا کاشی ۔۔۔۔ یہ آپکی آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہوگئیں اور بدن بھی تپ رہا ہے ! ! ! ! "
کاشان نے اسکا جملہ مکمل بھی نہ سنا ۔۔۔۔ دھیرے سے مسکرایا کروٹ لی اور آنکھیں موندھ کر بے سدھ ہو گیا ۔

لگتا ہے تھکن سے بخار ہوگیا ہے ابھی تو سوگئے اب صبح ہی دوا دوں گی۔۔۔ ثمن نے سوچا اور واش روم کی طرف چل دی ۔۔۔۔
چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ۔۔۔۔۔۔ چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ

اس بار آواز بلند تھی ۔۔۔۔ ثمن کو فوراً اس صندوق کا خیال ایا جو اس نے صبح ہی مزدوروں سے چھت پر رکھوایا۔۔۔۔ کوئی اسے بڑی تیزی سے کھسکا رہا تھا
وہ واش روم کے دروازے پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی

چرڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ڑ ! ٹھک ! ٹھک !
گہرے سناٹے میں صندوق کو کھسکا کر پٹخنے کی آواز بلکل واضح سنائی دے رہی تھی ۔۔۔
ثمن نے ادھ کھلے گریبان کو کس کے جکڑ لیا

کاشی ! ۔۔۔۔ اس نے چیخنا چاہا مگر آواز حلق میں ہی گُھٹ گئ
کاشان بے خبر سو رہا تھا

کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ !
اس بار کوئی تیزی سے صحن میں سیڑھیاں اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثمن نے کپکپاتے ہوئے ایک تیز سانس کھینچا
دھپ ! دھپ ! دھپ ! دھپ !

تیز قدموں کی آواز بیڈروم کے دروازے کے پاس آکر رک گئی

اس نے اپنی پوری قوت جمع کی اور بیڈ کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔

ابھی دوسرا قدم رکھا ہی تھا کہ لاک آہستگی سے گھوما
اور ہلکی سی چرچراہٹ سے دروازہ کُھل گیا۔۔۔

"ارے ثمن تم جاگ گئیں ۔۔۔۔ !" !!!

ثمن ساکت ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ دروازے پر کاشان کھڑا تھا ۔۔۔۔

"نئے گھر میں پہلی رات ہے نا اسی وجہ سے شاید مجھےنیند نہیں آرہی ،

اور تم بھی سو رہی تھیں تو میں نے سوچا چلو چھت پر بکھرا سامان سمیٹ دوں یہاں کی بارش کا تو تمہیں پتا ہے نا کبھی بھی بن موسم برس جاتی ہے۔۔۔"

ثمن نے پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے قریب آتے کاشان کو دیکھا اور بیڈ کی طرف گردن موڑ لی

"مگر تم کو کیا ہوا تم اتنی سہمی ہوئی کیوں کھڑی ہو ! ! ! "

ثمن نے خود کو جھنجھوڑتے کاشان کو کوئی جواب نہ دیا

وہ تو مسلسل خالی بستر پر بکھری چادر کی اُن سلوٹوں کو دیکھ رہی تھی ، جو تھوڑی دیر پہلے وہاں کسی کی پہلی رات گزرنے کی داستان بیان کر رہی تھیں

فرحانہ صادق

Thursday 8 May 2014

٭٭٭٭ بڑا آسیب ٭٭٭٭

0 comments



یہ لڑکا کون ہے جو ابھی گزرا ہے ؟؟

دوھزار گز پر بنی قلعے جیسی حویلی سے بڑے سائیں کی پراڈو آہستہ آہستہ باہر نکل رہی تھی ۔۔

زینت مائی کا پوتا ہے سائیں ! ۔ ۔ ۔ ۔اگلی سیٹ سے آواز آئی

اُس کالی چمارن کا ! ! ! ! ۔ ۔ ۔ ۔ بڑے سائیں چونکے
ذرا روک تو اسے

جی حکم !!! سامنے آتے ہی لڑکے نے ہاتھ جوڑ لئیے اور نظریں جُھکالیں
کیا نام ہے تیرا؟ ۔ ۔ ۔ آواز میں گرج تھی

ہارون سائیں ! ۔ ۔ ۔ لڑکا کچھ اور جھُک گیا

یہ تُو اتنا صاف ستھرا ہوکر بستہ اُٹھائے کہاں جا رہا ہے ؟؟
غراتا ہوا سوال تھا ۔۔۔۔

سکول جارہا ہوں سائیں ۔ ۔ ۔ ۔لڑکا تھر تھر کانپ رہا تھا
سکول ! ! ! ! !
اب کمیوں کے بچے بھی سکول جائیں گے ۔ ۔ ۔ ایک بھاری قہقہہ فضا میں گونجا
آقا ہنسا تو حواری بھی ہنسنے لگے ۔۔۔

پاگل ہو گیا ہے کیا ۔ کبھی تیرے اگلوں نے بھی سکول کی شکل دیکھی ہے
بڑے سائیں کی آواز میں اب بھی گرج تھی ۔۔۔

خنک موسم کے باوجود لڑکا پسینے سے شرابور تھا ۔

چل پھینک بستہ ! ! ! ! !

لرزتے ہاتھوں سے بستہ چھُٹا اور ساتھ ہی لڑکا بھی گھٹنوں پر گرگیا ۔ ۔ ۔
یہ صاف کپڑے اُتار ۔ ۔ ۔ ۔

کانپتے ہاتھ اپنے بدن سے اپنے خواب الگ کر رہے تھے
یہ جوتے بھی اتار ۔ ۔ ۔

اب لڑکا جھلنگے بدرنگ بنیان اور پاجامے میں تھا ۔ ۔ ۔ ۔

ہاں اب لگ رہا ہے نا تُو اپنی ذات کا ۔ ۔ ۔ چل اب زمین پر لوٹ لگا۔ ۔ ۔ ۔

بڑے سائیں کا حکم حتمی تھا

خاک کو خاک میں ملا تے وقت بھی لڑکے کے ہاتھ جُڑے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔

کمی غلامی کے جملة آداب سے واقف جو تھا

چل اُٹھ اب جا کر گند سمیٹ ۔ ۔
جھاڑو مار ۔ ۔ ۔ ۔

گاڑی کا بلیک کوٹڈ شیشہ آہستہ آہستہ اوپر اُٹھتا چلا گیا ۔ ۔ ۔
۔
بڑے سائیں کی بیوی نماز پڑھ رہی تھی جب زینت مائی حویلی کے واش روم صاف کرنے آئی

اس نے روتے ہوئے کہا ۔ ۔ 
اماں سائیں تم تو ولی لوگ ہو نا ۔۔۔۔میرے ہارون کے لئیے دعا کرو

درگاہ والے بابا کہتے ہیں اُس پر کسی بڑے آسیب کا سایہ ہوگیا ہے
نہ کھاتا ہے نہ سوتا ہے ۔  

بس دن رات دیوانوں کی طرح گلیوں کی جھاڑو لگاتا رہتا ہے اور اسکی آنکھوں سے آنسو بہتے رہتے ہیں ۔

فرحانہ صادق