Friday 20 December 2013

بسلسلہ ہفتہِ مکتوب نویسی انحراف فرحانہ صادق صاحبہ کا خط بنام ناصر کاظمی

2 comments

 


میں نے آج تک تمہیں نہ کوئی خط لکھا اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجا ۔۔ مگر آج بہت جی کر رہا ہے کہ تمہیں کچھ لکھوں ۔۔ آج تمھاری سالگرہ ہے نا اور سوچتی ہوں اگر آج بھی کچھ نہ لکھا تو تمہارے حوالے سے جو دکھ مجھے ہوتے ہیں ان میں اک پچھتاوے کا اور اضافہ ہو جائے گا ۔

 

 

سالگرہ مبارک ہو !!!!!!!!!!

 

 

میرے ناصر ! 

 

 

میرے لیئے تم کسی گمشدہ خزانے کی طرح ہو جسے میں تلاش کرتی پھرتی ہوں ۔ ۔۔۔ نہیں معلوم ریحانہ تمہارے ان احساسات تک کبھی پہنچی ،جن سے میں خود کو گھائل محسوس کرتی ہوں تمہاری ہر غزل ہر نظم ہر تحریر اس یقین سے پڑھتی ہوں گویا یہ تم نے میرے لیئے ہی لکھی ہے ۔آج کے دن تمہاری راہ ایسے دیکھتی ہوں جیسے تمہارا آنا طے ہے۔۔۔۔۔۔

 

 

تمہیں سرخ گلاب بہت پسند ہیں نا اسی لیئے تمہاری کتابوں سےہر سال سوکھے پھول نکال کر ان میں تازہ گلاب رکھ دیتی ہوں اس امید پہ کہ شاید انکی مہک کے ساتھ میرے پیار کی خوشبو تم تک پہنچ جائے ۔۔۔۔۔ 

 

 

لوگ پوچھتے ہیں کہ مجھے تمہاری شاعری سے اگر ایسا ہی عشق ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتا ۔ میں تمہارے شعر دنیا کے سامنے کیوں نہیں گنگناتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں انہیں کیا کہوں کہ میری رگوں میں بہتا رقابت کا زہر ہی میرے سچے عشق کی دلیل ہے 

 

 

۔۔ یہ بڑی عجیب اور خودغرضانہ خواہش ہے مگر کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ ہر ایک کی یاداشت سے تمہارا نقش مٹا دوں ۔۔۔۔۔۔۔ماسوا اسکے جو کتابیں میرے پاس ہیں تمہاری ہر تحریر جلادوں ۔کاش تمہارا اور میرا جنم ایک ہی زمانے میں ہوتا ،

 

 

میں جانتی ہوں کہ اپنے قاری سے تم بے خبر ہزاروں ، لاکھوں میل دور زندگی بھر یکجا کیے سوالوں کے جوابات پانے میں سرگرداں ہوگے ۔۔۔۔ پھر بھی مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا ۔۔۔۔

 

 

منتظر فرحانہ

 

 

مورخہ 8 دسمبر 2013

 

بسلسلہ ہفتہِ مکتوب نویسی انحراف فرحانہ صادق صاحبہ کا خط بنام ناصر کاظمی_

بلاعنوان

0 comments



 ۔عزادار پوری شدت و عقیدت سے گریہ و ماتم میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ ذکر اور نعروں کی آوازیں بلند ہوتیں تو زنجیریں کھنک جاتیں اور آنسوؤں کے ساتھ لہو کا نذرانہ بھی پیش ہو جاتا ۔۔۔۔۔ گو میثم کی تمام تر توجہ جلوس و عزاداری پر تھی مگرکسی کسی وقت  اُسے  عمر کا بھی خیال آجاتا۔۔۔۔۔ وہ حیران تھا کہ آج جلوس کی رفتار اتنی سُست کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ بار بار اُن لوگوں کی طرف دیکھ رہا تھا جو  اچانک کہیں سے نکل کر جلوس کے آگے آگئے تھے  اور اتنا سست چل رہے تھے  کہ جلوس کی رفتار دھیمی پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ میثم ایک  بار اُن کے قریب بھی گیا ۔۔۔۔ اُسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ ان میں سے کچھ کے ہاتھوں میں ماتم کے لیئے جو تلواریں تھین وہ کافی تیز دھار تھیں ۔۔۔۔۔ اتنی تیز کہ جتنی عموما ماتم کے لیئے استعمال نہیں کی جاتیں تھیں ۔۔۔۔۔ مگر اُس نے اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیا۔۔۔۔اور لوگوں نے بھی تھوڑی دیر اُن کا نوٹس لیا مگر  کچھ بھی مشکوک نہ پا کر اُن پر توجہ ہٹا دی۔۔۔ میثم کا ذہن بھی ؑعمر میں اٹکا ہوا تھا اسے پوری امید کہ جس طرح آج اس نےجس طرح عمر کو مجبور کیا تھا وہ اسکی بات ضرور مانے گا ۔۔۔۔۔

.یار تُو کب تک آئے گا ۔۔ میثم نے آنکھیں ملتے ہوئےعمرکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا

آنا ضروری ہے کیا ؟ جواب میں عمر نے بھی سوال داغ دیا

ہاں ! میثم کا جواب حتمی تھا

چھُٹی ہے نا یار ابا گھر پر ہی ہے ۔۔۔۔ اُسے پتا چل گیا تو بہت مارے گا ۔۔۔۔۔۔

 چل ہٹا یار تُو ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے ۔۔۔۔۔ میثم نے ناراضگی سے عمر کا ہاتھ جھٹکا اور واپسی کے لیئے مُڑ گیا  

اچھا اچھا رُک تو عمر نے اسے کندھے سے روکا

نہیں رہنے دے یار تُو ہر بار ایسے ہی کرتا ہے ۔۔۔۔ میثم کے لہجے میں خفگی تھی

اچھا بتا ابھی کیا ٹائم ہورہا ہے ۔۔۔۔۔ عمر نے پوچھا

ابھی تو ساڑھے نو ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ میثم نے سامنے والی دُکان کی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔۔دس بجے تک سب ہمارے گھر جمع ہو جائیں گے اور جلوس شروع ہو جائے گا۔۔۔

مگر میں تیرے گھر سے شامل نہیں ہوسکتا یار ۔۔۔۔۔ ابا کتنا بھی کھُلے ذہن کا سہی اسکی اجازت نہیں دے گا ۔۔۔۔۔ عمر نے آہستہ آواز میں کہااور ویسے بھی ابا جمعہ پڑھنے جاتے وقت میرا ضرور پوچھتا ہے ۔۔۔۔

رہنے دے یارپھر تیری سٹوری شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ میثم کے انداز میں دوبارہ غصہ عود آیا

عمر نے جیسے ہار مانی ........اوئے رُک تو ۔۔۔ میں سوچ رہا ہوں آج جمعہ بڑے مدرسے والی مسجد میں پڑھ لوں ۔۔۔۔۔ تیرا جلوس وہاں سے بھی تو گزرتا ہے میں وہاں سے تیرے ساتھ آجاوں گا۔۔۔

لے وہاں تو نماز ڈیڑھ بجے ہوتی ہے تجھے فارغ ہوتے ہوتے ڈھائی بج جائے گا جب تک تو ہمارا جلوس وہاں سے گزر چُکا ہوگا ۔۔۔ میثم ابھی بھی خفا تھا

 چل اچھا میں وہاں ساڑھے بارہ تک پہنچ جاوں گا ۔۔۔۔۔ پہلے تیرے ساتھ مل جاوں گا پھرجمعہ پڑھ لوں گا ۔۔۔۔۔ عمر نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا

 بھائی !!! اماں کہہ رہی ہیں ناشتے کے لیئے دودھ اور انڈے جلدی سے لادو ۔۔۔۔۔ چھ سالہ رمل نے عمر کے ہاتھ میں سو کا نوٹ پکڑواتے ہوئے کہا

ارے سکینہ ادھر آ !!! ۔۔۔۔۔ رمل کو دیکھ کر میثم کا موڈ اچھا ہوگیا

 میں سکینہ نہیں رمل ہوں ۔۔۔۔۔ رمل منہ بنا کر ممنائی

ہوگی پر میں تو تجھے سکینہ ہی کہوں گا ۔۔۔۔۔ میثم نے اُس کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔

ہنہ !!! رمل نے اٹھلا کر اسکا ہاتھ جھٹکا اور  اندر چلی گئی

۔

 اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے میثم کو ہر لمحہ بھائی بہن کی محرومی کا احساس رہتا ۔۔۔اس کمی کو اُس نے اپنے جگری دوست سے پورا کر لیا تھا ۔عمر اُسے بھائیوں سا عزیز تھا ۔۔۔۔ اور رمل بہنوں سی ۔۔۔۔۔۔۔ویسے تو اُسے عمر کے باقی بہن بھائیوں سے بھی اُنسیت تھی مگر رمل میں تو گویا اسکی جان تھی پہلے وہ سوچا کرتا تھا اُسکی بہن ہوگی تو وہ اُسکا نام سکینہ رکھے گا ۔۔۔۔۔۔ رمل آئی تو اُس نے اُسے ہی سکینہ کہنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔۔ عمر کے گھر والوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا ۔۔۔۔۔ میثم کے گھر سے اُنکے گھر کی دیواریں ملی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ اور مسلکوں کے فرق کے باوجود دل سے دل ۔۔۔۔۔ دونوں گھرانے ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام بھی کرتے تھے اور ایک حد تک ان میں شرکت بھی ۔۔۔۔۔عمر اور میثم ایک ساتھ پلے بڑھے ۔۔۔۔ دونوں ایک ساتھ سکول میں داخل ہوئے اور ایک ساتھ درجات پار کرتے ہوئے نویں میں پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔میثم کو ہر جگہ عمر کے ساتھ کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ محرم میں اُسے اکیلے مجلسوں میں شامل ہونا ناگوار لگتا ۔۔۔۔۔ وہ ہمیشہ عمر کو اپنے ساتھ لے جانے کی ضد کرتا کبھی عمر اسکی بات مان لیتا اور کبھی ابا کے ڈر کی وجہ سے ٹال دیتا ۔۔۔۔خون سے اُسے کراہیت آتی تھی اِس لیئے باوجود میثم کی بار بار کی ضد کے وہ کبھی برچھیوں اور آگ کے ماتمی جلوس میں اُسکے ساتھ نہ گیا ۔۔۔۔۔۔ مگر اس بار میثم نے اسے گویا اپنی قسم دے دی تھی ۔۔۔۔عمر نے  وعدہ تو کر لیا تھا مگر اب اُسے یہ سوچ سوچ کر گھبراہٹ ہو رہی تھی کہ وہ میثم کو زنجیروں اور برچھیوں کا ماتم کرتے دیکھے گا کیسے ۔۔۔۔۔بارہ بجے تک اُس نے اپنے سارے کام نمٹا لیئے اور جلدی سے غسل کر کے گھر سے نکل آیا تاکہ ابا اُسے اپنے ساتھ محلے کی مسجد میں جمعہ پڑھنے نہ لے جائے ۔۔۔پون ایک تک وہ مدرسے

والی مسجد پہنچ گیا ۔۔۔۔ سڑک پر بس مسجد میں آنے جانے والوں کی چہل پہل تھی ۔۔۔۔۔۔ جلوس کا کچھ پتا نہ تھا ۔۔۔۔کہیں جلوس گزر تو نہیں گیا ۔۔۔۔۔ عمر بُڑ بڑایا

اُس نے سوچا سڑک کے کنارے کھڑے سپاہی سے پوچھ لے جلوس کب تک آئے گا پھر یہ سوچ کر چُپ رہا کہ جانے وہ کیا شک کرے کہ یہ کیوں پوچھ رہا ہے۔۔۔مسالک کی جنگ اور فرقہ واریت کے زہر نے ایسے حالات کر دیئے تھے کہ ہر شخص دوسرے پر شک کرتا ہے اور خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔

آذان کب کی ہو چکی تھی اب تو مسجد سے خطبے آواز آرہی تھی ۔۔۔۔ عمر بے چین ہو رہا تھا۔۔۔۔میثم کو مس کال دوں کیا ۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے عمر نے جیب پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔موبائل کی غیر موجودگی کے ساتھ ہی اُسے خیال آیا نو دس محرم پر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیئے حکومت نے موبائل سروس بند کی ہوئی ہے ۔۔۔۔اپنی بیوقوفی پر اُسے ہنسی آگئی ۔

 نماز شروع ہوا ہی چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اُس نے اندر جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اسے دور نعروں اور شور کی آوازیں آنے لگیں ۔۔۔۔ آوازوں کے تعاقب میں اُس نے نظریں دوڑایں جلوس اُسے اپنے داہنی جانب مرکزی سڑک پر ڈھیروں عَلم اور انسانوں کا جم غفیر اٹھائے ایک بڑے سے دھبے کی مانند نظر آیا۔۔۔۔اُس نے دل ہی دل میں وقت کا حساب لگایا .......اسے یہ اطمنان ہوا جب تک جلوس مسجد کے سامنے سے گزرے گا جماعت ہو چکی ہوگی اور وہ بآسانی میثم کو تلاش کر کے اُسکے ساتھ شامل ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسلی ہونے کے باوجود اُس نے سب سے پیچھے والی صف کا انتخاب کیا اور اللہ اکبر کہتے ہوئے نیت باندھ لی۔۔۔

 جلوس اسی جوش مگر سست روی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا  مسجد کا مینار دیکھتے ہی میثم کا دھیان مکمل طور پر عمر کی طرف ہوگیا ۔۔۔۔ اسے جلوس کی رفتار سے کوفت سی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو عمر واپس نہ لوٹ جائے ۔۔۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ جلوس مسجد کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اندر سے نماز پڑھانے کی آواز آرہی تھی ۔۔۔۔۔اُس نے خود کو مسجد کے داخلی دروازے سے قریب کر لیا اور جلوس کے ساتھ گزرتے ہوئے عمر کی تلاش میں نظریں دوڑایں ۔۔۔۔۔ اُسے عمر نظر آگیا  ۔۔۔۔وہ آخری صف میں بیٹھا تھا ۔۔۔۔۔۔

اُس نے نماز پڑھ لی تھی اور سلام پھیر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میثم چیونٹی کی سی رفتار چلنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اچانک اُسکی نظر داخلی دروازے کے پیچھے چھُپے ایک شخص پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ اُس کے دونوں ہا تھوں میں بڑے بڑے پتھر تھے جنہیں اُس نے آن کے آن میں جلوس کی طرف اچُھال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسجد کی پچھلی طرف دوڑتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ بس پھر کیا تھا جلوس میں بھونچال آگیا ۔۔۔ لوگ غم و غصہ کی شدت سے نعرے لگانے لگے ۔۔۔۔۔۔میثم نے دیکھا وہی اجنبی افراد جو جلوس کے آگے آگے چل رہے تھے مسجد میں داخل ہوگئے اور انہوں نے تیزی سے نمازیوں پر وار کرنا شروع کر دئے ۔۔۔۔۔۔ میثم بھی بنا سوچے سمجھے مسجد میں بڑھتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ بھگدڑ مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ عمر نے بھی میثم کو دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔ میثم نے چاہا کہ وہ عمر تک پہنچ جائے مگر جب تک وہ اُس کے پاس پہنچتا اُنہی مشکوک افراد میں سے ایک نے پکڑ کر عمر کی گردن پر یک فُٹی چھُرا چلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ میثم کے سر پر بھی کسی چیز کی زور دار ضرب لگی ۔۔۔۔ بے ہوش ہونے سے پہلے میثم نے دیکھا کہ اس نے گرتے ہوئے عمر کو تھام لیا ہے اور اُسکی گردن سے پھوٹنے والا خون کا فوارہ اُسکے اپنے سینے پر بہتے خون سے اس طرح رل مِل رہا ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں پہچان سکتا کہ اُسکا خون کون سا ہے اور عمر کا کونسا۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کے خون ایک سے تو تھے ۔۔۔۔۔۔۔

۔دوسرے دن جب ہسپتال کے بستر پر اُسے ہوش آیا تو اُسے پتا چلا عمر اپنی آرامگاہ کی طرف جا چُکا ہے ۔۔۔۔تقریبا تیس افراد کے بہیمانہ قتل کے بعد شہر بھر میں کرفیو لگا دیا گیا ہےمزید فسانے نہ پھوٹیں اس لیئے عزاداروں نے اپنے حلقے اپنے علاقے تک محدود کر دئیے ۔۔۔۔۔۔۔

میثم گھر لوٹ آیا ۔۔۔۔۔ عمر کے گھر والوں سمیت محلے کے کافی لوگوں کو پتا چل چکا تھا کہ عمر اسکے اصرار کی وجہ سے وہاں گیا تھا۔۔۔۔۔۔ دونوں گھرانوں کے تعلقات میں سخت دراڑ پڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔ جو پھیلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔محلے کے لڑکوں کے دو گرہوں میں سخت فساد ہوا وجہ عمر کی موت کا واقعہ ٹہرایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حالات میثم کے گھر والوں کے لیئے قابل قبول نہ تھے ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ کوئی اُن کے بیٹے کو نقصان پہنچائے انہوں نے محلہ چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ چلتے ہوئے میثم نے سوچا ایک بار عمر کے گھر جائے اور اسکی اماں ابا سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لے مگر ہمت نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔ گلی میں رمل کو کھڑے دیکھا تو گویا سارے بند ٹوٹ گئے ۔۔۔۔۔ اُسکے سر پر ہاتھ رکھ کر روتا رہا ۔۔۔۔۔

رکھ کر روتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔

 دن گزرتے گئے ۔۔۔۔۔ سال بھی گزر گیا ....وہی دن آگیا ۔۔۔۔۔ آج بھی دس محرم تھا ۔۔۔۔۔ 

شہر کے مرکز سے پھر عزاداروں کا بڑا ماتمی جلوس گزرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔پھر وہی  زنجیروں اور آگ کا ماتم ہونا تھا

میثم نے اپنی زنجیریں نکالیں اور صاف کرنے لگا ۔۔۔۔۔ عمر کی یاد آتے ہی اسکا سینہ دھویں سے بھر گیا ۔۔۔۔آنسو رواں ہو گئے

میثم کہاں ہے اُسے جلدی بلاو۔۔۔۔۔ باہر سے آوازیں آرہی تھیں ..

میثم! میثم ! ۔۔۔۔۔۔۔ صحن میں ماموں کی آواز گونجی

میثم شاید اپنے کمرے میں ہے۔۔۔کوئی  سیڑھیاں چڑھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ 

میثم  نے تیزی سے آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے ...

زنجیریں اُٹھائیں اور ایک زنجیر کے سرے پر عمر کے نام کا اضافی برچھا اٹکا دیا

فرحانہ صادق