Friday 2 August 2013

ڈارون اور ہم

4 comments


مجھے لگتا ہے ڈارون کے اس نطریہ سے کہ ہم سب بندر کی اولاد ہیں ۔۔۔ بندر بھی بہت ناراض ہوئے ہوں گے اور آج تک ناراض ہیں تبھی تو کبھی کپڑے لے کر بھاگ جاتے ہیں تو کبھی جوتے لے کر ۔ ۔۔ویسے کچھ لوگوں کو دیکھ کر تو قائل ہونا پڑتا ہے ڈارون بے چارہ ٹھیک ہی کہتا تھا مگر اس بات کا اصرار ضرور ہے کہ سبھی کے آباء و اجداد بندر نہ ہوں گے کچھ کے گدھے ، کتے ، اور گدھ بھی رہے ہوں گے اور تو اور کچھ خواتین کو دیکھ کر بے اختیار انکا شجرہ شیرنیوں سے ملانے کو چاہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔
ڈارون کی تھیوری کا ایک فائدہ تو ہے ۔ ۔ ۔ مسجد سے جوتیاں چرانے کا الزام بآسانی بزرگوں کی طرف سے وراثت میں ملنے والی خصلت پر ڈالا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کبھی بندروں کو غور سے دیکھو تو صاف پتا چلتا ہے کہ آباءاجداد کے حوالے سے جو شکوک انسان کو بندروں پر تھے وہی بندروں کو بھی انسانوں پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔
دُم جیسی قیمتی اور فائدہ مند چیز سے محرومی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ڈارونی نظریہ کا دُکھ فی زمانہ محسوس کیا جاسکتا ہے مگر کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات اب بھی باقی ہیں
جیسے کہ
۔
آخر یہ ارتقاء محدود پیمانے اور محدود مدت کے لیئے ہی کیوں ہوا۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جو باقی بچنے والے بندر ہیں وہ ابھی تک کس جرم میں بندرہیں ؟؟؟؟؟
یہ ارتقائی عمل رُک کیوں گیا ہے ہم صدیوں سے انسان ہیں ، انسان ہی کیوں ہیں حالانکہ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اپنی پہچان کے لیئے دُم اور سینگوں کی اشد ضرورت ہے ؟؟؟؟
حیوانی ارتقاء کی ایک منزل انسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی ارتقاء کا اگلا پڑاو کس شکل میں ہے ؟؟؟؟؟؟؟

فرحانہ صادق بقلم خود :))))))))))))))))))))))))))

4 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔