Wednesday 24 July 2013

""" مجبوری """

0 comments
                                 
میں نے کہہ دیا اپیا ! میں کل سے کالج نہیں جاوں گی ۔ ۔ ۔  سنبل کراہی۔ 
کیوں ! اب کیا ہوا ؟۔ ۔ ۔ ۔ استری کرتے کرتے میرے ہاتھ رک گئے
آپ جانتی ہیں ۔ ۔ ۔  اُس نے دھیرے سے سر جھکا کر کہا 
کیا کچھ کہا ہے اُس نے ؟ ۔ ۔ ۔ میں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
کہنا کیا ہے پہلے تو صرف گھور گھور کر سیٹیاں بجاتا اور گانے گاتا تھا آج تو راستے کے درمیان آکر کھڑا ہو گیا اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنبل کی آواز بھرا گئی اس سے جملہ مکمل نہ ہوسکا ۔۔۔
۔ تم پریشان مت ہو ایک دو دن گھر میں رہ کر ہی پڑھائی کر لو میں دیکھتی ہوں اسکا کیا کرنا ہے۔ ۔ ۔ میں نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا ۔ ۔ 
امی بابا کی بے وقت حادثاتی موت نے  ہم تینوں بہنوں کو اکیلا اور غیر محفوظ کردیا تھا۔ صرف چار ماہ کے قلیل عرصے میں ہم نے چالیس سال کے تجربے حاصل کر لیئے تھے ۔ رشتے داروں کے سرد اور خودغرضانہ رویوں سے لے کر اخراجات کے عفریت تک ۔ ۔زندگی جیسے ریشمی ڈور سی الجھ گئی  مگر اب ہم نے اسے خود سلجھانا شروع کردیا تھا ۔۔۔  سب ہی نے اپنے اپنے حصے کے کام بانٹ لئیے ۔ ۔ بابا کے پرویڈنٹ فنڈ کی رقم کی سیونگ سے جو رقم ہر ماہ بینک سے آتی وہ ماہانہ اخراجات کے لئے ناکافی تھی سو صفیہ باجی نے ایک پرائیوٹ کمپنی میں جاب کرلی ۔ ۔ میرا گریجویشن  ابھی مکمل ہوا تھا ، یونیورسٹی کے داخلوں میں دیر تھی اس لیئے گھر سنبھالنے کی ذمہ داری میں نے ۔ ۔ اور ہم دونوں کو اپنی اپنی حرکتوں اور باتوں سے خوشی دینے کی ذمہ داری سنبل نے اٹھا لی ۔ ۔ ۔ ۔۔ 
سنبل اتنی چھوٹی بھی نہ تھی اسی سال اُس نے میٹرک کر کے فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تھا ۔ ۔ مگر ہمارے لئیے وہ بچہ ہی تھی اُس میں ہماری جان تھی ۔
۔سب 
دبیر کا خاندان ایک ماہ پہلے  ہماری گلی کے آخری مکان میں شفٹ ہوا تھا ۔ ۔ صرف ایک ہفتے بعد ہی دبیر کی بدمعاشی اور اوباش حرکتوں نے محلے کے لوگوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ ۔ چونکہ وہ ایک سیاسی پارٹی کا "فعال" کارکن  تھا اس لئیے محلے کے "شریف مردوں" نے اس سے الجھکر کہیں اسکی شکایت کرنے کے بجائے خود انحصاری کی بنیاد پر اپنی اپنی عورتوں کی حفاظت شروع کردی تھی۔ ۔ ۔ ۔ 
مگر ہم ! ! ! ! ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کیا کرتے ۔ ۔  ہمارے پاس تو کوئی مرد ہی نہ تھا 
صفیہ آپی کو آفس کی طرف سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت تھی مگر سنبل کو کالج کے لئے سٹاپ تک جانا پڑتا ۔ ۔ ۔ مجھے بھی جب کبھی گھر کے سودے سلف کے لئیے باہر نکلنا پڑتا تو ایسا ہی تلخ تجربہ ہوتا ۔ ۔
آج سنبل کی حالت نے میرے اندر غصہ بھر دیا تھا
۔ ۔ ۔  دل میں دبیر سے نمٹنے کا ارادہ لے کرمیں نے اپنے کپڑے جھاڑے ، بال درست کئے اور چادر سر پرلے کر گھر سے نکل آئی
گلی کے کنارے کھڑے دبیر کے فحش گانے کی آوازہمارے گھر کے دروازے سے ہی آنا شروع ہوگئی ۔ ۔ میں نے دھیرے دھیرے اُسکی سَمت قدم بڑھانا شروع کر دئے۔ ۔ ۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر اُس نے گانا بند کردیا اور ایک عامیانہ حرکت کرتے ہوئے اپنے دوست کی طرف قدرے جھک کر بلند آواز میں بولا۔ ۔ 
چھوٹی تو چھوٹی بڑی بھی قیامت ہے ۔ ۔ 
میں نے دل ہی دل میں اللہ اور امی بابا سے معافی مانگی ، سر سے چادر ڈھلکائی اور اُسکے قریب آکر مسکرا دی ۔ ۔ ۔
میں مرد تو تھی نہیں ۔ ۔ ۔  لہٰذا میں نے اپنی بہن کو عورت کی طرح بچانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔۔

 تحریر : فرحانہ صادق 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔