۔
تکلیف کی تیز لہر دوڑی
یا اللہ میری مدد فرما!!
ذکیہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے
کہ جو کچھ اسکے اندر مچل رہا ہے یکدم ہی باہر نکل جائے
درد کی شدت سے ذہن پھٹنے لگا
اس کی شکوہ بار نگاہیں بار بار آسمان کو اٹھ رہی تھیں
تو نے تخلیق کو اتنا مشکل کیوں بنا دیا ! !
وہ دھیان بٹانے کی کوشش کرتی رہی
اس بار مہینے کا سودا جلد ہی ختم ہو گیا ہے
بڑی خالہ نے کافی دنوں سے چکر نہیں لگایا
اجمل سے پوچھوں گی کل امی کے ہاں لے جائیں گے
صبا اور زین کے یونیفارم چھوٹے ہو رہے ہیں
اُف ! ! ! !
کوئی ایک بات بھی تو اسکے کرب کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی
چلو چائے پی لیتی ہوں
اچھا لاو یہ برتن ہی دھو لوں
وہ جھنجھلا رہی تھی
کیا کروں ! !
کیسے اپنی مشکل آسان کروں ! !
ایک اور شدید لہر
کُلبلا کر سوچا
اب وقت آگیا ہے
ہاں ہاں اب وقت آگیا ہے
اس نےادَھ دھلی پتیلی واپس سنک میں پٹخی اور تیزی سے کمرے میں داخل ہو گئی
مشکل آسان ہوا ہی چاہتی تھی
تخلیق کا عمل شروع ہوچکا تھا
دھیرے دھیرے
ڈائری کُھلی
قلم اُٹھا
اور
اورلفظ موتیوں کی لڑیاں بنتے چلے گئے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فرحانہ صادق
بہت خوب اچھی تحریر .واقعی تخلیق کا عمل دونوں طرح کا گویا تکلیف کی حد تک بہت مماثلت رکھتا ہے
اخبار جہاں میں چھپے کسی افسانچے کا سا مزا آیا۔ بلاگنگ میں خوش آمدید۔
Bano qudsia bhi yehi kehti hein........